کچھ نہ پائی دل نے تسکیں اور کچھ پائی تو کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ نہ پائی دل نے تسکیں اور کچھ پائی تو کیا
by صفی اورنگ آبادی

کچھ نہ پائی دل نے تسکیں اور کچھ پائی تو کیا
ایسی صورت سے تری صورت نظر آئی تو کیا

ایک دشمن کے کہے پر ناز وہ بھی اس قدر
اپنے مطلب کو کسی نے آپ کی گائی تو کیا

ہوش آنا تھا کہ وہ خاصے ستم گر بن گئے
ہائے ری قسمت کہ ان کو عقل بھی آئی تو کیا

او جفا پیشہ شگفتہ خاطری ہے اور شے
یوں ہنسی آنے کو رونے میں ہنسی آئی تو کیا

آپ اپنے دل سے پوچھیں آپ ہی سوچیں ذرا
میری آہوں میں اگر تاثیر بھی آئی تو کیا

میرے لاشے پر اگر تشریف بھی لائے تو ہیچ
بعد میرے ان کو میری یاد بھی آئی تو کیا

اپنی عادت سے وہ باز آ جائیں ممکن ہی نہیں
کہنے سننے سے گھڑی بھر کو حیا آئی تو کیا

کچھ نہ کچھ اغیار نے پٹی پڑھائی ہے ضرور
تم نے کھانے کو مرے سر کی قسم کھائی تو کیا

تھا جو کچھ تقدیر کا ہونا وہ ہو کر ہی رہا
کرنے والوں نے جو کی بھی چارہ فرمائی تو کیا

بے وفاؤں میں تو کچھ گنتی نہیں تیری طرح
ہم کو کہتی ہے اگر مخلوق سودائی تو کیا

اے صفیؔ ترک تعلق کر کے اتراتے ہو کیوں
عمر بھر میں یہ ہوئی ہے تم سے دانائی تو کیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse