کچھ نہیں کے دو پہلو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ نہیں کے دو پہلو  (1940) 
by علی منظور حیدرآبادی

جنہیں عشق سے واسطہ کچھ نہیں
انہیں حسن سے کیا ملا کچھ نہیں
جہاں زہد خشک آ گیا اس جگہ
محبت مروت وفا کچھ نہیں
خدا جانے کس دل سے کہتے ہیں لوگ
حسیں اور ان کی ادا کچھ نہیں
نہیں ہیں جو تنویر دل ماہ وش
شب ماہ میں بھی مزہ کچھ نہیں
شرر ہیں یہ ہنس مکھ ستارے اگر
تو ہر خندۂ خوش نما کچھ نہیں
نظر کے ہیں دھوکے مناظر اگر
تو پھر یہ چمن یہ فضا کچھ نہیں
حکیموں پہ حیرت نہ ہو کیوں مجھے
بڑھا علم تو کہہ دیا کچھ نہیں
نہ ساقی نہ ساغر نہ شاہد نہ باغ
مآل ان کی تحقیق کا کچھ نہیں
وجود ان کا میری نظر میں بھی کیا
عدم ہے عدم کے سوا کچھ نہیں
کہوں کیسے ہستی کے گلزار میں
فنا ہی فنا ہے بقا کچھ نہیں
میں خوش حسن سے ہوں سوا حسن کے
مری زیست کا مدعا کچھ نہیں
اگر میری نظروں سے دیکھے کوئی
بقا ہی بقا ہے فنا کچھ نہیں
یہ معمورۂ حسن ہے تو یہاں
خوشی ہے خوشی کے سوا کچھ نہیں
نگاہ حقیقت رس حسن سے
تعلق غم و رنج کا کچھ نہیں
مزے اہل دل کے لیے ہیں بہت
کہا میں نے کب یاں مزہ کچھ نہیں
یہ ساقی یہ ساغر یہ شاہد یہ باغ
حلاوت ہے دل میں تو کیا کچھ نہیں

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse