کچھ میں نے کہی ہے نہ ابھی اس نے سنی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ میں نے کہی ہے نہ ابھی اس نے سنی ہے
by آرزو لکھنوی

کچھ میں نے کہی ہے نہ ابھی اس نے سنی ہے
چتون ہے کہ تلوار لئے سر پہ کھڑی ہے

آنے کو ہے کوئی جو للک پھر سے ہوئی ہے
ڈوبے ہوئے سورج کی کرن پھوٹ رہی ہے

ہے پگھلی ہوئی آگ کہ جلتے ہوئے آنسو
لوکا وہیں اٹھا ہے جہاں بوند پڑی ہے

جب سکھ نہیں جینے میں تو اک روگ ہے جینا
سانس آئی ہے جب چوٹ کلیجے میں لگی ہے

کل کیا کہیں دیکھیں وہ بدلتی ہوئی چتون
سو آسرے ٹوٹے ہیں تو اک آس بندھی ہے

میں کچھ نہ کہوں اور وہ جو چاہے کہے جائیں
اب روکی ہوئی سانس گلا گھونٹ رہی ہے

کہنے کو تو آتی ہے انہیں ہاں بھی نہیں بھی
ہو جس پہ بھروسہ نہ وہی ہے نہ یہی ہے

ابھرے ہوے چھالے ہیں ہے روکا ہوا آنسو
بس بجھ چکی یہ آگ کہ پانی سے لگی ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse