کچھ محبت میں عجب شیوۂ دل دار رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ محبت میں عجب شیوۂ دل دار رہا
by ہجر ناظم علی خان

کچھ محبت میں عجب شیوۂ دل دار رہا
مجھ سے انکار رہا غیر سے اقرار رہا

کچھ سروکار نہیں جان رہے یا نہ رہے
نہ رہا ان سے تو پھر کس سے سروکار رہا

شب خلوت وہی حجت وہی تکرار رہی
وہی قصہ وہی غصہ وہی انکار رہا

طالب دید کو ظالم نے یہ لکھا خط میں
اب قیامت پہ مرا وعدۂ دیدار رہا

حال دل بزم میں اس شوخ سے ہم کہہ نہ سکے
لب خاموش کی صورت لب اظہار رہا

کچھ خبر ہے تجھے او چین سے سونے والے
رات بھر کون تری یاد میں بیدار رہا

اک نظر نزع میں دیکھی تھی کسی کی صورت
مدتوں قبر میں بے چین دل زار رہا

دل ہمارا تھا ہمارا تھا ہمارا لیکن
ان کے قابو میں رہا ان کا طرفدار رہا

عمر ہنس کھیل کے اس طرح گزاری اے ہجرؔ
دوست کا دوست رہا یار کا میں یار رہا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse