کچھ غرض وجہ مدعا باعث

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ غرض وجہ مدعا باعث
by منشی دیبی پرشاد سحر بدایونی

کچھ غرض وجہ مدعا باعث
کیوں خفا ہو گئے ہو کیا باعث

مجھ سے روٹھے ہو کیوں بلا باعث
کیا خطا کیا قصور کیا باعث

اب کھلا یہ کہ جان جانے کا
تھا سبب دل ہی دل ہی تھا باعث

میں نے چھیڑا تھا کیوں بگڑتے نہ وہ
خفگی کی ہوئی خطا باعث

میں انہیں چاہوں وہ یہ خود چاہیں
کوئی ایسا ہو یا خدا باعث

نہیں ملتے نہ ملئے بسم اللہ
پر بتا دیجئے ذرا باعث

آج کیوں وہ بگڑ گئے ہم سے
یا الٰہی نہ کچھ کھلا باعث

مر گئے دیکھ ہم ترا انداز
ہے فضا کی تری ادا باعث

جب کہا میں نے آئیے مرے پاس
دو گھڑی کے لیے کہا باعث

تم حسیں ہو تو چاہتے ہیں تمہیں
یہی باعث ہے اور کیا باعث

کر لیا کیسا آپ کو تسخیر
سحرؔ ہوں ورنہ اور کیا باعث

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse