کچھ صلہ ہی نہ ملا عشق میں جل جانے کا
Appearance
کچھ صلہ ہی نہ ملا عشق میں جل جانے کا
شمع نے لوٹ لیا سوز بھی پروانے کا
ضبط فریاد کی بے سود توقع دل سے
ظرف کیوں دیکھیے ٹوٹے ہوئے پیمانے کا
میرا مٹنا نہیں آسان محبت کی قسم
موت ہے نام ترے دل سے اتر جانے کا
حشر تک روئے گی دنیائے محبت مجھ کو
سلسلہ ختم نہ ہوگا مرے افسانے کا
موت کی نیند سے انساں کو جگا دیتی ہے
جس حقیقت میں ذرا رنگ ہو افسانے کا
اس طرح مجھ سے مخاطب ہے زمانہ جیسے
ہوش کی فکر بھی اک فرض ہو دیوانے کا
ان کے انداز ستم کا ہے تقاضا باسطؔ
عہد کر لیجئے مر مر کے جئے جانے کا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |