کچھ سرگزشت کہہ نہ سکے روبرو قلم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ سرگزشت کہہ نہ سکے روبرو قلم
by شاہ نصیر

کچھ سرگزشت کہہ نہ سکے روبرو قلم
گردش نصیب روز ازل سے ہے تو قلم

کاغذ کا تاؤ کیا ہے ترے روبرو قلم
ایسا ہی یعنی پیر کا نیزہ ہے تو قلم

ظالم نہیں تو حرف محبت سے آشنا
مشق ستم سے شرم کر اے جنگجو قلم

کیا خامہ لکھ سکے صفت زلف مشک بار
شورے کے بھی ہوئے ہیں کہیں مشک بو قلم

نامہ پر ہما ہو مرا اے شہ بتاں
لکھو گر استخواں سے بنا کر کبھو قلم

قاتل کو میں نے خط نہیں شنجرف سے لکھا
کس وجہ سے ہوا ہے تو اب سرخ رو قلم

یعنی کہ اس کے عشق میں اس دم ملا ہے یاں
منہ سے لہو لگا کے شہیدوں میں تو قلم

لکھ اور اک غزل کہ شگفتہ زمین ہے
لے کر نصیرؔ اب یہ لب آبجو قلم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse