کچھ درد ہے مطربوں کی لے میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ درد ہے مطربوں کی لے میں
by مصطفٰی خان شیفتہ

کچھ درد ہے مطربوں کی لے میں
کچھ آگ بھری ہوئی ہے نے میں

کچھ زہر اگل رہی ہے بلبل
کچھ زہر ملا ہوا مے میں

بدمست جہان ہو رہا ہے
ہے یار کی بو ہر ایک شے میں

ہیں ایک ہی گل کی سب بہاریں
فروردیں میں اور فصلِ دَے میں

ہے مستئ نیم خام کا ڈر
اصرار ہے جامِ پے بہ پے میں

مے خانہ نشیں قدم نہ رکھیں
بزمِ جم و بارگاہِ کے میں

اب تک زندہ ہے نام واں کا
گزرا ہے حسین ایک جے میں

ہوتی نہیں طے حکایتِ طے
گزرا ہے کریم ایک طے میں

کچھ شیفتہ یہ غزل ہے آفت
کچھ درد ہے مطربوں کی لے میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse