کچھ خوشی سے ہمیں عشق ستم ایجاد نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ خوشی سے ہمیں عشق ستم ایجاد نہیں
by منشی نوبت رائے نظر لکھنوی

کچھ خوشی سے ہمیں عشق ستم ایجاد نہیں
اپنے کہنے ہی میں اپنا دل ناشاد نہیں

تجھ سا بے رحم کوئی اور ستم ایجاد نہیں
دم بھی لینے کی اجازت دم بیداد نہیں

یہ نیا ظلم ہے یا رب کہ انہیں کا وعدہ
ہم انہیں یاد دلائیں وہ کہیں یاد نہیں

سیکھ جاتا ہے بشر عشق کے صدمے سہہ کر
چوٹ دل کی بھی کم از سیلئ استاد نہیں

جان ہی جائے گی یا صبر ہی آ جائے گا
یا ہمیں آج نہیں یا دل ناشاد نہیں

یہی محشر ہے یہی وعدۂ فردا کا ہے دن
آپ کیا بھول گئے اور مجھے یاد نہیں

یوں ہوا ہوں میں نظرؔ عشق بتاں میں کافر
میں تو میں میرے فرشتوں کو خدا یاد نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse