کچھ خاک رہ گزار تھے کچھ داغدار تھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ خاک رہ گزار تھے کچھ داغدار تھے
by عابد علی عابد

کچھ خاک رہ گزار تھے کچھ داغدار تھے
میرے چمن کے پھول شہید بہار تھے

منزل کڑی تھی پیش نظر اور ہم سفر
خوش تھے کہ زیر سایۂ دیوار یار تھے

ایما ہی تھا یہ چشم دل آویز یار کا
ہم رمز خوان گردش لیل و نہار تھے

ڈرتے نہ تھے درازیٔ شام فراق سے
ہم راز دار سلسلۂ زلف یار تھے

ہم جانتے تھے خون شہیداں کا ماجرا
ہم نکتہ دان غازۂ روئے نگار تھے

پھولوں سے ہم کلام تھے کانٹوں کے ہمزباں
دیکھو ہمیں کہ محرم فصل بہار تھے

یہ طرفہ ماجرا ہے کہ اڑتی تھی دل میں خاک
پھر بھی یہاں نشان کف پائے یار تھے

کرتا ہے اختیار غم یار بھی یہ روپ
ہم شاد تھے کہ رہن غم روزگار تھے

امسال موج گل ہی نہ تھی زینت چمن
سیلاب خوں بھی غازۂ روئے بہار تھے

آیا کوئی چمن میں سنہری قفس لئے
کچھ نغمہ گر طیور سر شاخسار تھے

ہم وحشیوں نے صحن گلستاں سے اے خزاں
تنکے بھی چن لئے کہ شریک بہار تھے

عابدؔ ذلیل و خوار تھی رسم نوا گری
نغمے ہمیں بھی نوک زباں بے شمار تھے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse