کچھ خار ہی نہیں مرے دامن کے یار ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ خار ہی نہیں مرے دامن کے یار ہیں
by امیر مینائی

کچھ خار ہی نہیں مرے دامن کے یار ہیں
گردن میں طوق بھی تو لڑکپن کے یار ہیں

سینہ ہو کشتگان محبت کا یا گلا
دونوں یہ تیرے خنجر آہن کے یار ہیں

خاطر ہماری کرتا ہے دیر و حرم میں کون
ہم تو نہ شیخ کے نہ برہمن کے یار ہیں

کیا پوچھتا ہے مجھ سے نشاں سیل و برق کا
دونوں قدیم سے مرے خرمن کے یار ہیں

کیا گرم ہیں کہ کہتے ہیں خوبان لکھنؤ
لندن کو جائیں وہ جو فرنگن کے یار ہیں

وہ دشمنی کریں تو کریں اختیار ہے
ہم تو عدو کے دوست ہیں دشمن کے یار ہیں

کچھ اس چمن میں سبزۂ بیگانہ ہم نہیں
نرگس کے دوست لالہ و سوسن کے یار ہیں

کانٹے ہیں جتنے وادئ غربت کے اے جنوں
سب آستیں کے جیب کے دامن کے یار ہیں

گم گشتگی میں راہ بتاتا ہے ہم کو کون
ہے خضر جن کا نام وہ رہزن کے یار ہیں

چلتے ہیں شوق برق تجلی میں کیا ہے خوف
چیتے تمام وادیٔ ایمن کے یار ہیں

پیری مجھے چھڑاتی ہے احباب سے امیرؔ
دنداں نہیں یہ میرے لڑکپن کے یار ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse