کچھ حسینوں کی محبت بھی بری ہوتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ حسینوں کی محبت بھی بری ہوتی ہے
by حسن بریلوی

کچھ حسینوں کی محبت بھی بری ہوتی ہے
کچھ یہ بے چپن طبیعت بھی بری ہوتی ہے

جیتے جی میرے نہ آئے تو نہ آئے اب آؤ
کیا شہیدوں کی زیارت بھی بری ہوتی ہے

آپ کی ضد نے مجھے اور پلائی حضرت
شیخ جی اتنی نصیحت بھی بری ہوتی ہے

اس نے دل مانگا تو انکار کا پہلو نہ ملا
خانہ برباد مروت بھی بری ہوتی ہے

اے حسنؔ آپ کہاں اور کہاں بزم شراب
پیر و مرشد بری صحبت بھی بری ہوتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse