کچھ تو ہو کر دو بدو کچھ ڈرتے ڈرتے کہہ دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ تو ہو کر دو بدو کچھ ڈرتے ڈرتے کہہ دیا
by نظیر اکبر آبادی

کچھ تو ہو کر دو بدو کچھ ڈرتے ڈرتے کہہ دیا
دل پہ جو گزرا تھا ہم نے آگے اس کے کہہ دیا

باتوں باتوں میں جو ہم نے درد دل کا بھی کہا
سن کے بولا تو نے یہ کیا بکتے بکتے کہہ دیا

اب کہیں کیا اس سے ہمدم دل لگاتے وقت آہ
تھا جو کچھ کہنا سو وہ تو ہم نے پہلے کہہ دیا

چاہ رکھتے تھے چھپائے ہم تو لیکن اس کا بھید
کچھ تو ہم نے سامنے اس ہم نشیں کے کہہ دیا

یہ ستم دیکھو ذرا منہ سے نکلتے ہی نظیرؔ
اس نے اس سے اس نے اس سے کہہ دیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse