کچھ تو ہو درد کی لذت ہی سہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ تو ہو درد کی لذت ہی سہی
by پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق

کچھ تو ہو درد کی لذت ہی سہی
تیری الفت میں اذیت ہی سہی

درد کو درد نہ جب تو سمجھے
بد گمانی تری عادت ہی سہی

دل مہجور میں ارمان وصال
نہ سہی دید کی حسرت ہی سہی

بت کدہ چھوڑنے والے تو نہ تھے
خیر ملتی ہے تو جنت ہی سہی

دل کو تھا خاک میں ملنا سو ملا
دیکھنے والوں کو عبرت ہی سہی

اس ستم گار نے کر لی توبہ
اے فلک ہاں کوئی آفت ہی سہی

کوئی جلوہ نظر آئے شاید
ٹکٹکی بندھنے کی عادت ہی سہی

ہیں کسی جلوے کی آنکھیں مشتاق
کچھ کم و بیش یہ غفلت ہی سہی

عشق کی بولتی تصویر ہے شوقؔ
دیکھنے والوں کو حیرت ہی سہی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse