کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا اے شورش دوراں بھول گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا اے شورش دوراں بھول گئے
by مجاز لکھنوی

کچھ تجھ کو خبر ہے ہم کیا کیا اے شورش دوراں بھول گئے
وہ زلف پریشاں بھول گئے وہ دیدۂ گریاں بھول گئے

اے شوق نظارہ کیا کہئے نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں
اے ذوق تصور کیا کیجے ہم صورت جاناں بھول گئے

اب گل سے نظر ملتی ہی نہیں اب دل کی کلی کھلتی ہی نہیں
اے فصل بہاراں رخصت ہو ہم لطف بہاراں بھول گئے

سب کا تو مداوا کر ڈالا اپنا ہی مداوا کر نہ سکے
سب کے تو گریباں سی ڈالے اپنا ہی گریباں بھول گئے

یہ اپنی وفا کا عالم ہے اب ان کی جفا کو کیا کہئے
اک نشتر زہر آگیں رکھ کر نزدیک رگ جاں بھول گئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse