کچھ بس ہی نہ تھا ورنہ یہ الزام نہ لیتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ بس ہی نہ تھا ورنہ یہ الزام نہ لیتے
by فانی بدایونی

کچھ بس ہی نہ تھا ورنہ یہ الزام نہ لیتے
ہم تجھ سے چھپا کر بھی ترا نام نہ لیتے

نظریں نہ بچانا تھیں نظر مجھ سے ملا کر
پیغام نہ دینا تھا تو پیغام نہ لیتے

کیا عمر میں اک آہ بھی بخشی نہیں جاتی
اک سانس بھی کیا آپ کے ناکام نہ لیتے

اب مے میں نہ وہ کیف نہ اب جام میں وہ بات
اے کاش ترے ہاتھ سے ہم جام نہ لیتے

قابو ہی غم عشق پہ چلتا نہیں ورنہ
احسان غم گردش ایام نہ لیتے

ہم ہیں وہ بلا دوست کہ گلشن کا تو کیا ذکر
جنت بھی بجائے قفس و دام نہ لیتے

خاموش بھی رہتے تو شکایت ہی ٹھہرتی
دل دے کے کہاں تک کوئی الزام نہ لیتے

اللہ رے مرے دل کی نزاکت کا تقاضا
تاثیر محبت سے بھی ہم کام نہ لیتے

تیری ہی رضا اور تھی ورنہ ترے بسمل
تلوار کے سائے میں بھی آرام نہ لیتے

اک جبر ہے یہ زندگی عشق کہ فانیؔ
ہم مفت بھی یہ عیش غم انجام نہ لیتے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse