کچھ اور تو نہیں ہمیں اس کا عجب ہے اب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ اور تو نہیں ہمیں اس کا عجب ہے اب
by نظیر اکبر آبادی

کچھ اور تو نہیں ہمیں اس کا عجب ہے اب
یعنی وہ شوخ ہم سے خفا بے سبب ہے اب

آہ و فغان و گریہ و اندوہ و درد و داغ
جو جنس عشق ہے وہ مرے پاس سب ہے اب

دیکھے سے جس کے غنچہ صفت گل ہو رشک ہے
ایسا تو اس جنم میں وہی غنچہ لب ہے اب

صبح فلک بھی جس کی تجلی سے ہو خجل
اس رشک ماہتاب سے اپنی وہ شب ہے اب

آئینہ ایک دم نہیں رکھتا ہے ہاتھ سے
ایسا وہ اپنے رخ کا تماشا طلب ہے اب

اس گل بدن کے وصل سے ہر دم نظیرؔ کو
سب سے زیادہ خلق میں عیش و طرب ہے اب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse