کون کہتا ہے یار نے مارا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کون کہتا ہے یار نے مارا  (1895) 
by رنج حیدرآبادی

کون کہتا ہے یار نے مارا
یار کے انتظار نے مارا

کچھ ترے انتظار نے مارا
کچھ دل بے قرار نے مارا

باتوں باتوں میں دل کو لے ہی گیا
مجھ کو ظالم کے پیار نے مارا

ہو پیالے میں قل کے بادۂ ناب
مجھ کو اک بادہ خوار نے مارا

نگہ ناز نے اگر چھوڑا
تیغ ابروئے یار نے مارا

اس نے وعدہ کیا قیامت کا
مجھ کو اس انتظار نے مارا

رنجؔ دنیا نے شیخ کو مجھ کو
غم روز شمار نے مارا

وصل میں غیر کا گلہ کیا خوب
مجھ کو در پردہ یار نے مارا

سر محفل لٹا لٹا کے مجھے
شوخیٔ چشم یار نے مارا

ابھی مرتا نہ میں مجھے اے رنجؔ
آفت روزگار نے مارا

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse