کون کہتا ہے کہ مرنا مرا اچھا نہ ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کون کہتا ہے کہ مرنا مرا اچھا نہ ہوا
by عاشق اکبرآبادی

کون کہتا ہے کہ مرنا مرا اچھا نہ ہوا
فکر درماں نہ ہوئی رنج مداوا نہ ہوا

واہ اس نالہ پہ اور اتنی عدو کو نازش
بزم میں اور تو کیا حشر بھی برپا نہ ہوا

سیر گلشن سے رہے شاد ولیکن افسوس
اب کے معلوم کچھ احوال قفس کا نہ ہوا

سو گئے سنتے ہی سنتے وہ دل زار کا حال
جب کو ہم سمجھے تھے افسوں وہی افسانہ ہوا

ربط کچھ داغ و جگر کا تو ہے چسپاں عاشقؔ
ورنہ اس دور میں کوئی بھی کسی کا نہ ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse