کون کرتا ہے سر زلف کی باتیں دل میں
Appearance
کون کرتا ہے سر زلف کی باتیں دل میں
جی پہ کٹتی ہیں عجب طرح کی راتیں دل میں
کوئی ترکیب ملاقات کی بنتی نہیں اور
وصل کے روز کیا کرتے ہیں گھاتیں دل میں
گو ہمیں تو نے یہ ظاہر میں نوازا پر ہم
دھیان میں اپنے تری کھاتے ہیں لاتیں دل میں
طرفہ شطرنج محبت کی ہے غائب بازی
شاطر عشق کو ہو رہتی ہیں ماتیں دل میں
کون سی آن و ادا ہے کہ نہیں جی کو لگے
کھب رہی ہیں وہ تری سب حرکاتیں دل میں
ذات گر پوچھیے آدم کی تو ہے ایک وہی
لاکھ یوں کہنے کو ٹھہرائیے ذاتیں دل میں
وصل کا صاد بھی ہوئے گا حسنؔ صبر کرو
دفتر عشق کی دوڑیں ہیں براتیں دل میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |