کون وقت اے وائے گزرا جی کو گھبراتے ہوئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کون وقت اے وائے گزرا جی کو گھبراتے ہوئے
by محمد ابراہیم ذوق

کون وقت اے وائے گزرا جی کو گھبراتے ہوئے
موت آتی ہے اجل کو یاں تلک آتے ہوئے

آتش خورشید سے اٹھتا نہیں دیکھا دھواں
آ کھڑے ہو بام پر تم بال سکھلاتے ہوئے

چاک آتا ہے نظر پیراہن صبح بہار
کس شہید ناز کو دیکھا ہے کفناتے ہوئے

وہ نہ جاگے رات کو اور ضد سے بخت خفتہ کی
بج گیا آخر گجر زنجیر کھڑکاتے ہوئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse