کون صیاد ادھر بہر شکار آتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کون صیاد ادھر بہر شکار آتا ہے
by میاں داد خاں سیاح

کون صیاد ادھر بہر شکار آتا ہے
طائر دل قفس تن میں جو گھبراتا ہے

زلف مشکیں کا جو اس شوخ کے دھیان آتا ہے
زخم سے سینۂ مجروح کا چر جاتا ہے

ہجر میں موت بھی آئی نہ مجھے سچ ہے مثل
وقت پر کون کسی کے کوئی کام آتا ہے

اب تو اللہ ہے یاران وطن کا حافظ
دشت میں جوش جنوں ہم کو لیے جاتا ہے

ڈوب کر چاہ ذقن سینہ مرا دل نکلا
قد آدم سے سوا آب نظر آتا ہے

مژدہ اے دل کہ مسیحا نے دیا صاف جواب
اب کوئی دم کو لبوں پر مرا دم آتا ہے

تیغ سی چلتی ہے قاتل کی دم جنگ زباں
صلح کا نام جو لیتا ہے تو ہکلاتا ہے

طرۂ کاکل پیچاں رخ نورانی پر
چشمۂ آئینہ میں سانپ سا لہراتا ہے

شوق طوف حرم کوئے صنم کا دن رات
صورت نقش قدم ٹھوکریں کھلواتا ہے

دو بہ دو عاشق شیدا سے وہ ہوگا کیونکر
آئینے میں بھی جو منہ دیکھتے شرماتا ہے

سخت پچھتاتے ہیں ہم دے کے دل اس کو سیاحؔ
اپنی افسوس جوانی پہ ہمیں آتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse