کون سے دل میں محبت نہیں جانی تیری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کون سے دل میں محبت نہیں جانی تیری
by حیدر علی آتش

کون سے دل میں محبت نہیں جانی تیری
جس کو سنتا ہوں وہ کہتا ہے کہانی تیری

کچھ دہن ہی نہیں وہم شعرا کے نزدیک
مو سے باریک کمر بھی ہے گمانی تیری

جس کے آگے سے گزرتا ہے وہ کہتا ہے یہی
دیکھی اے روح رواں ہم نے روانی تیری

شیشۂ مے سے کوئی میری زبانی کہہ دے
خوش نہیں آتی ہے یہ پنبہ دہانی تیری

کیا تری شان ہے قربان ہوں اے عفو کریم
آس رکھتا ہے ہر اک فاسق و زانی تیری

اس خرابی میں ترے واسطے پھرتے ہیں خراب
جستجو ہم کو ہے اے کنج نہانی تیری

عین احساں ہے مرے صفحۂ دل پر مجھ کو
ایک تصویر اگر کھینچ دے مانیؔ تیری

صبح تک شام سے کرتی ہے زباں ذکر جمال
نیند آتی ہے کسے سن کے کہانی تیری

مثل گل ہنس کے کسی روز تو دل کو خوش کر
خوں رلاتی ہے ہمیں غنچہ دہانی تیری

ناز و انداز و ادا میں ہے ترقی دہ چند
فتنہ طفلی تھی قیامت ہے جوانی تیری

کون سے غلہ کا دانہ تو اے دانۂ خال
ہم نے ارزانی میں بھی پائی گرانی تیری

گرم جوشی سے جلایا کرے کشف و خرمن
برق ہو سکتی نہیں شوخی میں ثانی تیری

جان کی طرح سے رکھتا ہے عزیز اے گل رو
داغ دل لالہ نے سمجھا ہے نشانی تیری

مصرع تیغ ہے ہر مصرع موزوں آتشؔ
دیکھ لی یار مری سیف زبانی تیری

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse