کون سا طائر گم گشتہ اسے یاد آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کون سا طائر گم گشتہ اسے یاد آیا
by داغ دہلوی

کون سا طائر گم گشتہ اسے یاد آیا
دیکھتا بھالتا ہر شاخ کو صیاد آیا

میرے قابو میں نہ پہروں دل ناشاد آیا
وہ مرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا

کوئی بھولا ہوا انداز ستم یاد آیا
کہ تبسم تجھے ظالم دم بیداد آیا

لائے ہیں لوگ جنازے کی طرح محشر میں
کس مصیبت سے ترا کشتۂ بیداد آیا

جذب وحشت ترے قربان ترا کیا کہنا
کھنچ کے رگ رگ میں مرے نشتر فصاد آیا

اس کے جلوے کو غرض کون و مکاں سے کیا تھا
داد لینے کے لیے حسن خداداد آیا

بستیوں سے یہی آواز چلی آتی ہے
جو کیا تو نے وہ آگے ترے فرہاد آیا

دل ویراں سے رقیبوں نے مرادیں پائیں
کام کس کس کے مرا خرمن برباد آیا

عشق کے آتے ہی منہ پر مرے پھولی ہے بسنت
ہو گیا زرد یہ شاگرد جب استاد آیا

ہو گیا فرض مجھے شوق کا دفتر لکھنا
جب مرے ہاتھ کوئی خامۂ فولاد آیا

عید ہے قتل مرا اہل تماشا کے لیے
سب گلے ملنے لگے جب کہ وہ جلاد آیا

چین کرتے ہیں وہاں رنج اٹھانے والے
کام عقبیٰ میں ہمارا دل ناشاد آیا

دی شب وصل موذن نے اذاں پچھلی رات
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا

میرے نالے نے سنائی ہے کھری کس کس کو
منہ فرشتوں پہ یہ گستاخ یہ آزاد آیا

غم جاوید نے دی مجھ کو مبارک بادی
جب سنا یہ کہ انہیں شیوۂ بیداد آیا

میں تمنائے شہادت کا مزا بھول گیا
آج اس شوق سے ارمان سے جلاد آیا

شادیانہ جو دیا نالہ و شیون نے دیا
جب ملاقات کو ناشاد کی ناشاد آیا

لیجئے سنئے اب افسانۂ فرقت مجھ سے
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا

آپ کی بزم میں سب کچھ ہے مگر داغؔ نہیں
ہم کو وہ خانہ خراب آج بہت یاد آیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse