کون سا دن کہ مجھے اس سے ملاقات نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کون سا دن کہ مجھے اس سے ملاقات نہیں
by قائم چاندپوری

کون سا دن کہ مجھے اس سے ملاقات نہیں
لیک جی چاہے ہے جوں ملنے کو وہ بات نہیں

آنکھ لڑ جائے ہے یوں اب بھی تو اس کی محرم
لیک نظروں میں وہ آگے کی سی سمکھات نہیں

جس جھمکڑے سے کہ نت چشم مری ٹپکے ہے
ایسی جھڑیوں سے تو برسی کبھی برسات نہیں

رونق بادہ پرستی تھی ہمیں تک جب سے
ہم نے کی توبہ کہیں نام خرابات نہیں

شیخ کی داڑھی کی جو کہئے بڑائی سچ ہے
اس سوا اور پر اک پشم کرامات نہیں

آ جو ملتا ہے تو مل لے تو کہ فرصت ہے مفت
ایک چشمک میں مری جان یہ پھر رات نہیں

رکھ تو سرگوشی کے حیلے کو تو منہ پر قائمؔ
بوسہ لینے کی اس انبوہ میں گو گھات نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse