کون سا تن ہے کہ مثل روح اس میں تو نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کون سا تن ہے کہ مثل روح اس میں تو نہیں
by بخش ناسخ

کون سا تن ہے کہ مثل روح اس میں تو نہیں
کون گل ہے جو ترا مسکن برنگ بو نہیں

جام نرگس میں کہاں شبنم جو نکلے آفتاب
یار کے آگے مری آنکھوں میں اک آنسو نہیں

یاد گیسو میں ہوا میرا یہ دھجی سا بدن
مجھ پہ پھبتی کہتے ہیں موباف ہے گیسو نہیں

جسم ایسا گھل گیا ہے مجھ مریض عشق کا
دیکھ کر کہتے ہیں سب تعویذ ہے بازو نہیں

دیکھے ہیں ہنسنے میں جس دن سے در دندان یار
چین مثل گوہر غلطاں کسی پہلو نہیں

عشق میں بدمست ہوں میں پر کوئی واقف نہیں
نشہ ہے جام مئے الفت میں لیکن بو نہیں

زلف جاناں میں نہیں کوئی دل وحشی اسیر
یہ عجب تاتار ہے جو ایک بھی آہو نہیں

ہو گیا ہے یہ قران آفتاب و ماہ نو
یار کے رخسار آتش رنگ پر ابرو نہیں

ہو گیا ہے مثل مو تار نگہ اپنا سیاہ
آگے آنکھوں کے صنم جب سے ترے گیسو نہیں

رات دن ناقوس کہتے ہیں بآواز بلند
دیر سے بہتر ہے کعبہ گر بتوں میں تو نہیں

قمریاں دیوانی ہیں کیونکر گلے میں ہو نہ طوق
باغ میں اک سرو مثل قامت دل جو نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse