کون دنیا سے بادہ خوار اٹھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کون دنیا سے بادہ خوار اٹھا
by شیخ علی بخش بیمار

کون دنیا سے بادہ خوار اٹھا
چشم تر ابر نو بہار اٹھا

کھا کے غش گر پڑے کھڑے بیٹھے
بیٹھ کر اس ادا سے یار اٹھا

آتش عشق دیکھ کر مالک
الاماں الاماں پکار اٹھا

درد تعظیم مرگ کو دل میں
شب فرقت ہزار بار اٹھا

جیتے جی دور آسمانی میں
نہ زمیں سے یہ خاکسار اٹھا

ابر رحمت نے دے دیا چھینٹا
بعد مرنے کے جب غبار اٹھا

وحشت دل نے پھر نکالے پاؤں
پھر تحمل کا اختیار اٹھا

پھر جنوں فصل گل میں لایا رنگ
پھر میں ہونے کو شرمسار اٹھا

حال بیمارؔ جائے رقت ہے
مرہم دل کا اعتبار اٹھا

چور زخم جگر میں بیٹھ گیا
چارہ گر ہو کے شرمسار اٹھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse