کون دل ہے مرے اللہ جو ناشاد نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کون دل ہے مرے اللہ جو ناشاد نہیں
by ریاض خیرآبادی

کون دل ہے مرے اللہ جو ناشاد نہیں
کون گھر ہے مرے اللہ جو برباد نہیں

نازنیں جان بھی لیں تو کوئی بیداد نہیں
چوڑیاں ہاتھ میں ہیں خنجر فولاد نہیں

اے نسیم سحری ساتھ لیے جا سوئے بام
نفس رد ہے نالہ نہیں فریاد نہیں

سبز باغ آپ دکھائیں نہ اب آزادی کے
آپ کے باغ میں تو سرو بھی آزاد نہیں

چپ سے ہیں کچھ مرے آغوش میں وہ حشر کے دن
یہ وہی ہیں جنہیں پیمان وفا یاد نہیں

دیکھتے رنگ حنا جاتے ہیں مقتل کی طرف
ہاتھ میں تیغ نہیں خنجر فولاد نہیں

ہے تری جیب پر آج آنکھ نشیمن کے عوض
باغباں یہ تو کوئی چور ہے صیاد نہیں

شور قلقل میں گم آواز اذاں ہے اے شیخ
یہ بہت خوب کہی مے کدہ آباد نہیں

ایک اک پھول کو ایک ایک کلی کو دیکھا
ہار میں ان کے ہمارا دل ناشاد نہیں

نکلی ہیں حشر میں دنیا کی پرانی باتیں
میں تو کیا میرے فرشتوں کو بھی اب یاد نہیں

نہ گری برق مگر آپ گرے غش کھا کر
یہ تو اے حضرت موسیٰ کوئی افتاد نہیں

جس سے آتا تھا نشیمن کا قفس میں کچھ لطف
تیرے قربان تری آنکھ وہ صیاد نہیں

دل سے نکلی ہے یہ دل ہی میں رہے گی ظالم
جا کے دیوار سے ٹکرائے وہ فریاد نہیں

کام کرتا تھا جو اے چرخ ترے پردے میں
وہ نہیں کام میں تو لذت بیداد نہیں

یہ بہت ہے رہے دل پر جو حکومت قائم
آج قبضے میں اگر بصرہ و بغداد نہیں

بوئے خوں دیتے ہیں شیریں ترے مہندی لگے ہاتھ
ہاتھ میں لالے کے خون سر فرہاد نہیں

حد سے آگے نہ بڑھے دیکھیے مژگان دراز
چھیڑنے کے لئے کم نشتر فصاد نہیں

شعرا آپ کو بھی خوب بناتے ہیں ریاضؔ
سب یہ کہتے ہیں کوئی آپ سا استاد نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse