کون ان لاکھوں اداؤں میں مجھے پیاری نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کون ان لاکھوں اداؤں میں مجھے پیاری نہیں
by ثاقب لکھنوی

کون ان لاکھوں اداؤں میں مجھے پیاری نہیں
نام لوں کس کس کا مجھ کو ایک بیماری نہیں

آگ کتنی لے کے نکلا تھا مرا دود جگر
وہ فضا ہے کون جس میں کوئی چنگاری نہیں

یاس سے کیوں دیکھتے ہیں دوست اے آزار دل
پوچھتے ہیں کیا مجھے تو کوئی بیماری نہیں

ہاتھ رکھ کر اک ذرا دیکھو تپ غم کا اثر
یہ تمہارا ہی جلایا دل ہے چنگاری نہیں

دل نے رگ رگ سے چھپا رکھا ہے تیرا راز عشق
جس کو کہہ دے نبض ایسی میری بیماری نہیں

قید ہو کر میں نے کھولی ہم صفیروں کی زباں
کس گلستاں میں مرا ذکر گرفتاری نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse