کون آئے گا جو تو بے سر و ساماں ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کون آئے گا جو تو بے سر و ساماں ہوگا
by میر کلو عرش

کون آئے گا جو تو بے سر و ساماں ہوگا
ورنہ ہوگا تو نہ اندیشۂ درباں ہوگا

قتل کے بعد بھی اک عیش کا ساماں ہوگا
مئے گل رنگ لہو زخم نمکداں ہوگا

بانکپن بس کہ ہے منظور مرے قاتل کو
گل دستار بھی اب غنچۂ پیکاں ہوگا

اک نظر دیکھ سکے گا نہ تری چشم سیاہ
سبزۂ خط بھی چراگاہ غزالاں ہوگا

تو وہاں بھی جو نہ ہو یار تو پھر ہے اندھیر
روز محشر پہ گمان شب ہجراں ہوگا

دلبرو دل کے نہ لے جانے میں اصرار کرو
تم کو کیا فائدہ ہوگا مرا نقصاں ہوگا

جاتے ہیں صبر و قرار و خرد و ہوش و حواس
جرس قافلہ اپنا دل نالاں ہوگا

میرے عیسیٰ سے مرے درد کا درماں ہوگا
شربت وصل علاج تپ ہجراں ہوگا

واعظ ہم کو تو نہ ہنگامۂ محشر سے ڈرا
اپنے نزدیک وہ اک مجمع یاراں ہوگا

آئنہ دیدۂ حیراں تجھے دکھلائے گا
شانۂ زلف مرا حال پریشاں ہوگا

دل بے عشق سے کونین میں تو ہوگا خراب
برہمن دیر میں کعبہ میں مسلماں ہوگا

گر یہ ہیں دست جنوں اور وہ ہیں خار جنوں
نہ تو دامن ہی رہے گا نہ گریباں ہوگا

شاخ گل ہے قلم فکر تو اشعار ہیں گل
عرشؔ دیوان مرا رشک گلستاں ہوگا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse