کوئے دشمن سے اسے چھپ کے نکلتے دیکھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئے دشمن سے اسے چھپ کے نکلتے دیکھا
by ریاض خیرآبادی

کوئے دشمن سے اسے چھپ کے نکلتے دیکھا
ہم نے نقش قدم یار کو چلتے دیکھا

ہائے کیا حال دم وصل ہمارا ہوگا
بوسہ لینے میں تمہیں رنگ بدلتے دیکھا

ابر بن کر جو برس پڑنے کو آیا واعظ
بے طرح ہم نے خم مے کو ابلتے دیکھا

یہ بھی پینا ہے کوئی چال ہے یہ بھی کوئی
ہر قدم پر انہیں سو بار سنبھلتے دیکھا

یہی آنکھیں ہیں کہ جن میں نہیں اب نام کو اشک
انہیں آنکھوں سے کبھی خون ابلتے دیکھا

حشر کے روز نہ تاب ابر کرم کو آئی
مجھ گنہ گار کو جب دھوپ میں جلتے دیکھا

گیسوئے حور کہو سبزۂ تربت کیسا
قبر دشمن سے دھواں ہم نے نکلتے دیکھا

کوچۂ عشق میں اللہ رے پا مردیٔ دل
ٹھوکریں کھا کے اسے ہم نے سنبھلتے دیکھا

غیر کے گھر سے جھجکتے ہوئے تم نکلے تھے
رکتے دیکھا تمہیں پھر چھپ کے نکلتے دیکھا

دل میں کیا جان تھی کیا قطرۂ خوں کی تھی بساط
ملتے دیکھا اسے ہاتھوں سے مسلتے دیکھا

پھول لالے کا کھلا تھا کہ شفق شام کی تھی
وصل کی رات کو بھی رنگ بدلتے دیکھا

کبھی کچھ رات گئے یا کبھی کچھ رات رہے
ہم نے ان پردہ نشینوں کو نکلتے دیکھا

خون دل پر ہے عبث رشک تری مہندی کو
اپنی ہی آگ میں ہم نے اسے جلتے دیکھا

دل بیتاب تھا یا آگ کی چنگاری تھی
کس قدر جلد انہیں پاپوش سے ملتے دیکھا

واہ کیا رنگ ہے کیا خوب طبیعت ہے ریاضؔ
ہو زمیں کوئی تمہیں پھولتے پھلتے دیکھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse