کوئی کیسا ہی ثابت ہو طبیعت آ ہی جاتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی کیسا ہی ثابت ہو طبیعت آ ہی جاتی ہے
by قلق میرٹھی

کوئی کیسا ہی ثابت ہو طبیعت آ ہی جاتی ہے
خدا جانے یہ کیا آفت ہے آفت آ ہی جاتی ہے

وہ کیسے ہی چلیں تھم تھم قیامت آ ہی جاتی ہے
بچے کوئی کسی ڈھب سے پہ شامت آ ہی جاتی ہے

ستم کر کے ستم گر کی نظر نیچی ہی رہتی ہے
برائی پھر برائی ہے ندامت آ ہی جاتی ہے

زلیخا بے خرد آوارہ لیلیٰ بد مزہ شیریں
سبھی مجبور ہیں دل سے محبت آ ہی جاتی ہے

چراغ و شمع بزم یار کر کر غیر کو پھونکا
دل افسردہ میں آخر حرارت آ ہی جاتی ہے

ہوا نظروں ہی نظروں میں وہ محشر برق صد خرمن
محبت کی نگاہوں سے شرارت آ ہی جاتی ہے

پسینہ آ گیا ان کو کیا وعدہ جو آنے کا
بری ہے ناز برداری نزاکت آ ہی جاتی ہے

ہر اک سے اب وہ کہتے ہیں کہ لو ہم پر یہ مرتے ہیں
جییں گے اس طرح کب تک کہ غیرت آ ہی جاتی ہے

نہیں کچھ دل کا پھرنا عہد دشمن سے ترا پھرنا
مگر کچھ سوچ کر آخر مروت آ ہی جاتی ہے

نہ ہوتی گر نوید مرگ کیوں کر ہجر میں جیتے
محبت میں بھی آسائش پہ نیت آ ہی جاتی ہے

وصال غیر کے قصے کو سن کر کیا تڑپتا ہوں
یہ ارماں کوئی جا سکتا ہے حسرت آ ہی جاتی ہے

اگر صد سال کیجے شکر الفت کیجئے لیکن
یہ وہ شیوہ ہے بد ظن پھر شکایت آ ہی جاتی ہے

قلقؔ خط غیر کا کیوں کر نہ آتا کیوں نہ تم پڑھتے
قضا لکھی ہوئی حضرت سلامت آ ہی جاتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse