کوئی کمر کو تری کچھ جو ہو کمر تو کہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی کمر کو تری کچھ جو ہو کمر تو کہے
by محمد ابراہیم ذوق

کوئی کمر کو تری کچھ جو ہو کمر تو کہے
کہ آدمی جو کہے بات سوچ کر تو کہے

مری حقیقت پر درد کو کبھی اس سے
بہ آہ و نالہ نہ کہوے بہ چشم تر تو کہے

یہ آرزو ہے جہنم کو بھی کہ آتش عشق
مجھے نہ شعلہ گر اپنا کہے شرر تو کہے

بقدر مایہ نہیں گر ہر اک کا رتبہ و نام
تو ہاں حباب کو دیکھیں کوئی گہر تو کہے

کہے جو کچھ مجھے ناصح نہیں وہ دیوانہ
کہ جانتا ہے کہے کا ہو کچھ اثر تو کہے

جل اٹھے شمع کے مانند قصہ خواں کی زباں
ہمارا قصۂ پرسوز لحظہ بھر تو کہے

صدا ہے خوں میں بھی منصور کے انا الحق کی
کہے اگر کوئی توحید اس قدر تو کہے

مجال ہے کہ ترے آگے فتنہ دم مارے
کہے گا اور تو کیا پہلے الحذر تو کہے

بنے بلا سے مرا مرغ نامہ بر بھنورا
کہ اس کو دیکھ کے وہ منہ سے خوش خبر تو کہے

ہر ایک شعر میں مضمون گریہ ہے میرے
مری طرح سے کوئی ذوقؔ شعر تر تو کہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse