کوئی پوچھے نہ ہم سے کیا ہوا دل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی پوچھے نہ ہم سے کیا ہوا دل
by ریاض خیرآبادی

کوئی پوچھے نہ ہم سے کیا ہوا دل
ہوا کیا لٹ گیا دل مٹ گیا دل

یہ کہہ کر دے دیا مجھ کو مرا دل
ہمیں کوسے گا دے گا بد دعا دل

مزا دے جائے گی مجھ کو تری آنکھ
مزا دے جائے گا تجھ کو مرا دل

چمن میں جو کھلا گل میں یہ سمجھا
کہ ہے میرا یہ مرجھایا ہوا دل

اٹھے گا لطف صحبت کا ابھی تو
نئے تم ہو نئے ہم ہیں نیا دل

کسی سے یوں دغا کرتے نہیں ہیں
ارے او بے مروت بے وفا دل

قیامت ہے تمہاری چلبلی شکل
قیامت ہے ہمارا چلبلا دل

ہمارا دل ہمارے کام کا ہے
کہاں پائیں تمہارے کام کا دل

بہت ہے جم کو اپنے جام پر ناز
ذرا لانا مرا ٹوٹا ہوا دل

کسی کا زور پھر چلتا نہیں ہے
کسی سے جب کسی کا مل گیا دل

اسے کس منہ سے کہتے ہو برا تم
تمہیں کس دل سے دیتا ہے دعا دل

گیا وہ داغ لے کر داغ دے کر
نشانی دے گیا دل لے گیا دل

حسیں اس کو برا سمجھے بچی جاں
برا بن کر بہت اچھا رہا دل

کہیں کیا کس نے لوٹا کس کو لوٹا
لٹے ہم تم لٹا جوبن لٹا دل

وہی اچھا تھا اس چھاتی کی سل سے
بدل دیتا کسی بت سے خدا دل

تمہاری راہ میں وہ بھی پڑا ہے
ذرا دیکھے ہوئے ٹوٹا ہوا دل

کوئی اب مفت بھی خواہاں نہیں ہے
ریاضؔ ایسا گیا گزرا ہوا دل

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse