کوئی نہیں کہ یار کی لاوے خبر مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی نہیں کہ یار کی لاوے خبر مجھے
by میر حسن دہلوی

کوئی نہیں کہ یار کی لاوے خبر مجھے
اے سیل اشک تو ہی بہا دے ادھر مجھے

یا صبح ہو چکے کہیں یا میں ہی مر چکوں
رو بیٹھوں اس سحر ہی کو میں یا سحر مجھے

نہ دیر ہی کو سمجھوں ہوں نہ کعبہ یہ ترا
پھرتا ہے اشتیاق لئے گھر بہ گھر مجھے

منت تو سر پہ تیشہ کی فرہاد تب میں لوں
جب سر پٹکنے کو نہ ہو دیوار و در مجھے

کیا جاؤں جاؤں کرتا ہے جاناں تو بیٹھ جا
میں دیکھوں تجھ کو اور تو دیکھ اک نظر مجھے

پھر کوئی دم میں آہ خدا جانے یہ فلک
لے جاوے کس طرف کو تجھے اور کدھر مجھے

رونا کبھی جو آنکھوں بھی دیکھا نہ تھا حسنؔ
سو اب فلک نے دل کا کیا نوحہ گر مجھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse