کوئی نہیں پچھتانے والا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی نہیں پچھتانے والا
by نوح ناروی

کوئی نہیں پچھتانے والا
مر جائے مر جانے والا

محفل میں آئے گا کیوں کر
خلوت میں شرمانے والا

میں روکوں لیکن کیا روکوں
جائے گا گھر جانے والا

شکر خدا کا ہم کرتے ہیں
کام آیا کام آنے والا

صبر مرا بے کار نہ جائے
تڑپے وہ تڑپانے والا

اپنا دل بہلاؤں کس سے
ہے کون آنے جانے والا

وہ نہ ملیں مجھ کو مل جائے
کوئی جی بہلانے والا

دل وہ شے ہے جس کا شاکی
کھونے والا پانے والا

لطف و کرم فرماتا جائے
لطف و کرم فرمانے والا

سب سے مشکل بات یہی ہے
زندہ ہو مر جانے والا

کیا سمجھے اسرار محبت
دل دے کر پچھتانے والا

پھولوں کا مرجھانا دیکھے
کلیوں پر اترانے والا

جان مری ہے جانے والی
دل ہے ان پر آنے والا

یا میں ہوں یا میرا دل ہے
روز نیا غم پانے والا

نوحؔ محبت کی دنیا میں
ہے طوفان اٹھانے والا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse