کوئی مے دے یا نہ دے ہم رند بے پروا ہیں آپ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی مے دے یا نہ دے ہم رند بے پروا ہیں آپ
by نظم طباطبائی

کوئی مے دے یا نہ دے ہم رند بے پروا ہیں آپ
ساقیا اپنی بغل میں شیشۂ صہبا ہیں آپ

غافل و ہشیار وہ تمثال یک آئینہ ہیں
ورطۂ حیرت میں ناداں آپ ہیں دانا ہیں آپ

کیوں رہے میری دعا منت کش بال ملک
نالۂ مستانہ میرے آسماں پیما ہیں آپ

ہے تعجب خضر کو اور آب حیواں کی طلب
اور پھر عزلت گزین دامن صحرا ہیں آپ

منزل طول امل درپیش اور مہلت ہے کم
راہ کس سے پوچھئے حیرت میں نقش پا ہیں آپ

حق سے طالب دید کے ہوں ہم بصیر ایسے نہیں
ہم کو جو کوتہ نظر سمجھیں وہ نا بینا ہیں آپ

گل ہمہ تن زخم ہیں پھر بھی ہمہ تن گوش ہیں
بے اثر کچھ نالہ ہائے بلبل شیدا ہیں آپ

حرص سے شکوہ کروں کیا ہاتھ پھیلانے کا میں
کہتی ہے وہ اپنے ہاتھوں خلق میں رسوا ہیں آپ

ہم سے اے اہل تنعم منہ چھپانا چاہئے
دم بھرا کرتے ہیں ہم اور آئنہ سیما ہیں آپ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse