کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
by الطاف حسین حالی

کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں
مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں

قفس میں جی نہیں لگتا کسی طرح
لگا دو آگ کوئی آشیاں میں

کوئی دن بوالہوس بھی شاد ہو لیں
دھرا کیا ہے اشارات نہاں میں

کہیں انجام آ پہنچا وفا کا
گھلا جاتا ہوں اب کے امتحاں میں

نیا ہے لیجئے جب نام اس کا
بہت وسعت ہے میری داستاں میں

دل پر درد سے کچھ کام لوں گا
اگر فرصت ملی مجھ کو جہاں میں

بہت جی خوش ہوا حالیؔ سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.