کوئی مجھ سا مستحق رحم و غم خواری نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی مجھ سا مستحق رحم و غم خواری نہیں
by منشی نوبت رائے نظر لکھنوی

کوئی مجھ سا مستحق رحم و غم خواری نہیں
سو مرض ہیں اور بظاہر کوئی بیماری نہیں

ہر قدم پر باغ عالم میں بچھا ہے دام حسن
کون ایسا ہے جسے ذوق گرفتاری نہیں

دیکھے گر غور سے دنیا ہے غفلت کا طلسم
یہ بھی خواب عشق ہے فرقت سے بیداری نہیں

جان لے کر بھی جو ہاتھ آئے تو ارزاں جانیے
سہل ایسی جنس الفت کی خریداری نہیں

عشق کی ناکامیوں نے اس قدر کھینچا ہے طول
میرے غم خواروں کو اب یارائے غم خواری نہیں

مجھ سے ضبط درد الفت کی شکایت ہے فضول
اے دل ناداں تجھے احساس خود داری نہیں

میری دولت دیکھ کر کیوں تم نے ٹھنڈی سانس لی
بے کسوں پر رسم آئین ستم گاری نہیں

ہر طرف سے یہ صدا آتی ہے ملک حسن میں
یہ وہ دنیا ہے جہاں رسم وفاداری نہیں

ہو گیا شاید کہ صرف سوز غم سب خون دل
آنسوؤں کا اب وہ دریا آنکھ سے جاری نہیں

اس کو رحم آئے کہاں یہ نا امیدی میں امید
دل کو خوش کرنا ہے شغل گریہ و زاری نہیں

ہم ہیں چپ بیٹھے ہوئے لیکن ہے دل مصروف عشق
اس عدیم الفرصتی کا نام بیکاری نہیں

بند آنکھوں سے نظر آتی ہے ہر شے دہر کی
عالم رویا میں فرق خواب و بے داری نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse