کوئی شمع اور کوئی پروانہ ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی شمع اور کوئی پروانہ ہوگا
by خوشی محمد ناظر

کوئی شمع اور کوئی پروانہ ہوگا
جہاں میں عشق کا افسانہ ہوگا

جنون عشق سے ہے لطف ہستی
وہ دیوانہ ہے جو فرازانہ ہوگا

ترے مستوں کا اے کوثر کے ساقی
وہی پیماں وہی پیمانہ ہوگا

خرابات جہاں وقف فنا ہے
مگر باقی ترا مے خانہ ہوگا

رواں ہیں کارواں جس کی طرف سب
یہی وہ کوچۂ جانانہ ہوگا

وہ دل ہی کیا کہ رقص موج جس کا
حریف جنبش دریا نہ ہوگا

وبال دوش ہے وہ سر کہ جس میں
کسی کے عشق کا سودا نہ ہوگا

جسے شہد و شکر کی آرزو ہے
لب نوشیں کا وہ رسیا نہ ہوگا

محبت کے ہیں رنگا رنگ نیرنگ
کہیں افسوں کہیں افسانہ ہوگا

پرستاری ہے طینت میں بشر کی
جہاں کعبہ نہیں بت خانہ ہوگا

پیامی سے کسی نے کہہ دیا ہے
کہ ناظرؔ سے کوئی پروانہ ہوگا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse