کوئی رنج ہے نہ شکایتیں مجھے اپنے ہوش پریدہ سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی رنج ہے نہ شکایتیں مجھے اپنے ہوش پریدہ سے
by سراج الدین ظفر

کوئی رنج ہے نہ شکایتیں مجھے اپنے ہوش پریدہ سے
یہ وہ شمع تھی جو بھڑک اٹھی مری آہ نیم کشیدہ سے

مری وحشتوں کی ہے انتہا کہ کسی کا حسن ہے رونما
کبھی میرے دامن چاک سے کبھی میری جیب دریدہ سے

میں نمود حسن الست ہوں میں چراغ عشق بدست ہوں
یہ تجلیات بہار ہیں مرے رنگ و بوئے پریدہ سے

تری یاد میری انیس ہے تری یاد میری جلیس ہے
مری زندگی کی نمود ہے تری آرزوئے تپیدہ سے

میں حرم میں محو نیاز تھا میں بتوں میں سجدہ طراز تھا
کبھی امتیاز نہ ہو سکا مرے ذوق ہجر چشیدہ سے

کوئی آرزوئے دلی سراجؔ مراد کو نہ پہنچ سکی
کوئی پھول بار نہ پا سکا مری کشت برق رسیدہ سے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse