کوئی دن کا آب و دانہ اور ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی دن کا آب و دانہ اور ہے
by اسماعیل میرٹھی

کوئی دن کا آب و دانہ اور ہے
پھر چمن اور آشیانہ اور ہے

ہاں دل بے تاب چندے انتظار
امن و راحت کا ٹھکانہ اور ہے

شمع پھیکی رات کم محفل اداس
اب مغنی کا ترانہ اور ہے

اے جوانی تو کہانی ہو گئی
ہم نہیں وہ یا زمانہ اور ہے

جس کو جان زندگانی کہہ سکیں
وہ حیات جاودانہ اور ہے

جس کو سن کر زہرۂ سنگ آب ہو
آہ وہ غمگیں فسانہ اور ہے

وا اگر سمع رضا ہو تو کہوں
ایک پند مشفقانہ اور ہے

اتفاقی ہے یہاں کا ارتباط
سب ہیں بیگانے یگانہ اور ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse