کوئی حسین ہے مختار کار خانۂ عشق
کوئی حسین ہے مختار کار خانۂ عشق
کہ لا مکاں ہی کی چوکھٹ ہے آستانۂ عشق
نگاہیں ڈھونڈھ رہی ہیں دل یگانۂ عشق
اشارے پوچھ رہے ہیں کہاں ہے خانۂ عشق
پھریں گے حشر میں گرد دل یگانۂ عشق
کریں گے پیش خدا ہم طواف خانۂ عشق
نئی صدا ہو نئے ہونٹھ ہوں نیا لہجہ
نئی زباں سے کہوں گر کہوں فسانۂ عشق
جو مولوی ہیں وہ لکھیں گے کفر کے فتوے
سناؤں صورت منصور اگر ترانۂ عشق
اگر لگے تو لگے چوٹ میرے نالے کی
اگر پڑے تو پڑے دل پہ تازیانۂ عشق
جو ڈال دیں اسے پتھر پہ بھی پھلے پھولے
درخت طور بنے سبز ہو کے دانۂ عشق
تمہیں کہو جو لٹا دیں تو کون خالی ہو
خزانہ حسن کا افزوں ہے یا خزانۂ عشق
وہ رات آئے کہ سر تیرا لے کے بازو پر
تجھے سلاؤں بیاں کر کے میں فسانۂ عشق
وہ در تک آتے نہیں در سے ہم نہیں اٹھتے
ادھر بہانۂ حسن اور ادھر بہانۂ عشق
سکھائی کس نے یہ رفتار میرے نالے کو
کمر کی طرح لچکتا ہے تازیانۂ عشق
کسی کو پیار کرے گا شباب میں تو بھی
ترے بھی گھر میں جلے گا چراغ خانۂ عشق
جو خوش نویس ملے کوئی دیں گے دل اپنا
ہم اس کتاب میں لکھوائیں گے فسانۂ عشق
گئے ہیں وہ مری محفل میں بھول کر رومال
یہ جانماز بچھا کر پڑھوں دوگانۂ عشق
کسی کے حسن نے کافر بنا دیا مائلؔ
لگا کے قشقۂ درد شراب خانۂ عشق
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |