کوئی جہاں میں نہ یا رب ہو مبتلائے فراق

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی جہاں میں نہ یا رب ہو مبتلائے فراق
by حفیظ جونپوری

کوئی جہاں میں نہ یا رب ہو مبتلائے فراق
کسی کی جان کی دشمن نہ ہو بلائے فراق

ہزار طرح کے صدمے اسے گوارا ہیں
مگر اٹھا نہیں سکتا ہے دل جفائے فراق

لبوں پہ جان ہے اب صدمہ ہائے دوری سے
خبر وصال کی دیتی ہے انتہائے فراق

زبان بند ہے یہ جوش غم کا عالم ہے
بیان ہو نہیں سکتا ہے ماجرائے فراق

کریں جو ضبط کلیجا سراہیے ان کا
کہ آسماں کو بلاتے ہیں نالہ ہائے فراق

جدا حفیظؔ ہوا کون تیرے پہلو سے
لبوں پر آٹھ پہر ہے جو ہائے ہائے فراق

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse