کوئی جانے تو کیا جانے وہ یکتا ہے ہزاروں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی جانے تو کیا جانے وہ یکتا ہے ہزاروں میں
by داغ دہلوی

کوئی جانے تو کیا جانے وہ یکتا ہے ہزاروں میں
ستم گاروں میں عیاروں میں دل داروں میں یاروں میں

کسی کا دل تو کیا شیشہ نہ ٹوٹا بادہ خواروں میں
یہ توبہ ٹوٹ کر کیوں جا ملی پرہیزگاروں میں

کہاں ہے دختر رز اے محتسب ہم بادہ خواروں میں
ترے ڈر سے وہ کافر جا چھپی پرہیزگاروں میں

کوئی غنچہ دہن ہنس کر ہمیں اب کیا ہنسائے گا
بہاریں ہم نے لوٹی ہیں بہت اگلی بہاروں میں

انہیں لوگوں کے آنے سے تو میخانے کی عظمت ہے
قدم لو شیخ کے تشریف لائے بادہ خواروں میں

وہ کترا کر چلے ہیں میکدے سے حضرت زاہد
بڑے مرشد ہیں ہاتھوں ہاتھ لانا ان کو یاروں میں

پڑا رویا کرے وہ داغؔ بیکس اس طرح تنہا
کہ جس کی رات دن ہنس بول کر گزری ہو یاروں میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse