کوئی تو بات ہے یا رب ہوائے کوے جاناں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی تو بات ہے یا رب ہوائے کوے جاناں میں
by صفدر مرزا پوری

کوئی تو بات ہے یا رب ہوائے کوے جاناں میں
اسیروں کو ذرا تسکین ہو جاتی ہے زنداں میں

یہاں کی خاک خون بے گنہ کا رنگ لاتی ہے
ذرا دامن بچا کر آئیے گور غریباں میں

یہ قد بوٹا سا گل سے گال آنکھیں نرگس شہلا
جوانی تم پہ کیا آئی بہار آئی گلستاں میں

زمانہ کی دو رنگی دیکھ کر جلتا ہے جی کیسا
کہ شبنم رو رہی ہے پھول ہنستے ہیں گلستاں میں

جو دیکھو غور سے تو چار دن کی زندگی کیا ہے
فقط ہیں چند سانسیں اور کیا رکھا ہے انساں میں

نہ روتا ہے کسی کے حال پر کوئی نہ ہنستا ہے
بڑے آرام سے سوتے ہیں سب گور غریباں میں

ستم ایجاد کس کس کو ترے درباں جگائیں گے
مری تقدیر بھی سوتی ہے میرے ساتھ زنداں میں

کریں گے سجدے جھک جھک کر بتوں کے پوجنے والے
صنم خانے کا لطف آئے گا صفدرؔ میرے دیواں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse