کوئی بات ایسی آج اے میری گل رخسار بن جائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی بات ایسی آج اے میری گل رخسار بن جائے  (1900) 
by حبیب موسوی

کوئی بات ایسی آج اے میری گل رخسار بن جائے
کہ بلبل باتوں باتوں میں دم گفتار بن جائے

عیاں ہو جذب شوق ایسا حسیں آئیں زیارت کو
مری تربت کا میلہ مصر کا بازار بن جائے

مرے ہنسنے پہ وہ کہتے ہیں ایسا بھی نہ ہو بے خود
کہ کوئی آدمی سے قہقہہ دیوار بن جائے

تعجب کچھ نہیں ہے گر وفور سوز فرقت سے
مرا ہر موئے تن منقار موسیقار بن جائے

ٹہلتے گر چلے آئیں وہ داغوں کے تماشے کو
ابھی سرو چراغاں میرا جسم زار بن جائے

برہمن شیخ کو کر دے نگاہ ناز اس بت کی
گلوئے زہد میں تار نظر زنار بن جائے

اگر گھر سے بقصد سیر نکلے وہ کماں ابرو
تو بہر طائر دل ہر مژہ سو فار بن جائے

تبسم کر تماشا دیکھ کے وحشت کا پھر ظالم
مرا چاک گریباں زخم دامن دار بن جائے

یوں ہی ہنس ہنس کے تم عاشق کا رونا دیکھتے جاؤ
کہ ہر تار نظر اک موتیوں کا ہار بن جائے

بڑھاؤ منزلت تیغ ادا کی تند خوئی سے
مناسب ہے جو یہ شمشیر جوہر دار بن جائے

اگر آئینۂ دل صاف ہو حسن توجہ سے
ہر اک آنکھوں کا پردہ پردۂ اسرار بن جائے

یہی ہے خوں بہا چل کر ذرا کہہ دو اشارے سے
حبیبؔ خستہ کا مرقد پس دیوار بن جائے

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse