کوئی اس سے نہیں کہتا کہ یہ کیا بے وفائی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی اس سے نہیں کہتا کہ یہ کیا بے وفائی ہے
by سردار گینڈا سنگھ مشرقی

کوئی اس سے نہیں کہتا کہ یہ کیا بے وفائی ہے
چرا کر دل مرا اب آنکھ بھی اپنی چرائی ہے

اٹھو اے مے کشو آباد مے خانہ کریں چل کر
ذرا دیکھو تو کیا کالی گھٹا گھنگھور چھائی ہے

بتوں کے عشق سے ہم باز آئے ہیں نہ آئیں گے
نہیں پروا ہمیں دشمن اگر ساری خدائی ہے

نشاط دل کو دشمن کے بنائیں گے اسی سے ہم
وہ کہتے ہیں تری آہ رسا تیرا ہوائی ہے

بگڑ کر غیر سے تم آئے ہو ہم یہ سمجھتے ہیں
ہمارے سامنے بے وجہ کیوں صورت بنائی ہے

ہر اک مشکل سے مشکل کام بنتا ہے بنانے سے
مگر بگڑی ہوئی قسمت کسی نے کب بنائی ہے

خبر سن کر مرے مرنے کی وہ کہنے لگے ہنس کر
کسی دشمن نے شاید یہ خبر جھوٹی اڑائی ہے

گلوں کو نغمۂ بلبل سنائی تک نہیں دیتا
ترے دیوانوں نے وہ دھوم گلشن میں مچائی ہے

دل عاشق میں ہو اے مشرقیؔ گر جذب دل کامل
وہ بت پھر کیوں نہ مائل ہو کوئی گھر کی خدائی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse