کوئی اس ستم گر کو آگاہ کر دے کہ باز آئے آزار دینے سے جھٹ پٹ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی اس ستم گر کو آگاہ کر دے کہ باز آئے آزار دینے سے جھٹ پٹ
by نوح ناروی

کوئی اس ستم گر کو آگاہ کر دے کہ باز آئے آزار دینے سے جھٹ پٹ
ادھر کی ادھر آج ہوتی ہے دنیا مریض محبت بدلتا ہے کروٹ

کبھی پردہ داری کبھی خود نمائی کبھی کچھ رکاوٹ کبھی کچھ لگاوٹ
تمہاری یہ چاروں ادائیں غضب ہیں یہ چاروں کریں گی ہزاروں کو چوپٹ

قیامت نہ اٹھے کہ اٹھے جہاں میں مگر بالیقیں میں تو اٹھوں گا جھٹ پٹ
تہ قبر جس وقت مجھ کو ملے گی سر قبر کچھ ان کے قدموں کی آہٹ

کوئی کس طرح اس کو تسلیم کر لے کہ دونوں اکیلے بسر کر رہے ہیں
ترے گرد تیری اداؤں کا مجمع مری حسرتوں کا مرے پاس جمگھٹ

خدا جانے آپس میں کیا پیش آئے یہ تاخیر و تعجیل کیا رنگ لائے
ہمارا ارادہ کہ فوراً نہ دیں دل تمہاری تمنا کہ مل جائے جھٹ پٹ

کہاں لطف بزم مسرت اٹھایا کہاں دور پر کیف گزرے نظر سے
مئے ناب اوروں کے حصے میں آئی ہمارے مقدر میں تھی صرف تلچھٹ

ادھر وہ بھی سرگرم ظلم و جفا ہے ادھر ہم بھی مصروف آہ و بکا ہیں
کہیں بڑھتے بڑھتے نہ بڑھ جائے جھگڑا کہیں ہوتے ہوتے نہ ہو جائے کھٹ پٹ

یہ کیوں ہے تأمل یہ کیوں ہے توقف یہ انکار کیا ہے یہ اغماض کیا ہے
لڑاؤ بھی آنکھیں ملاؤ بھی نظریں دکھاؤ بھی مکھڑا اٹھاؤ بھی گھونگھٹ

بہت کچھ چھپایا بہت کچھ بچایا مگر پیش بندی نہ کچھ کام آئی
کئے خنجر ناز نے چار ٹکڑے بالآخر ہوا دل محبت میں چوپٹ

محبت میں یہ جھڑکیاں بھی عبث ہیں یہ ہر وقت کی دھمکیاں بھی عبث ہیں
کرم ہو کہ مجھ پر ستم ہو تمہارا نہ اٹھوں گا در سے نہ چھوڑوں گا چوکھٹ

بیان تمنا سنا اور سن کر بڑی دیر سے غور فرما رہے ہیں
نہ آئیں گے یا میرے گھر آ گئے وہ جو ہونا ہو ارشاد ہو جائے جھٹ پٹ

ستم بھی اٹھائے ہزاروں طرح کے بلائیں بھی جھیلیں ہزاروں طرح کی
ہوا تجربہ ہم کو یہ دل لگا کر حسینوں سے دل کا لگانا ہے جھنجھٹ

ترے عشق میں کیوں نہ میں دل کو روؤں جگر کے لئے کیوں نہ میں آہ کھینچوں
شب و روز کی مختلف آفتوں نے اسے کر دیا چت اسے کر دیا پٹ

بنا غیرت آئینۂ دل ہمارا غبار آئے کیوں کر کدورت رہے کیا
مثل ہے وہ خس کم جہاں پاک والی نہ اس گھر میں کوڑا نہ اس گھر میں کرکٹ

محبت کے رستے میں اے شوق منزل ملے گا عجب لطف پائے طلب کو
ادھر خار ہیں اور ادھر آبلے ہیں اگر نذر ہاں وہ ہیں تو یہ ہیں منہ پھٹ

ترے عشق میں چین سے کیا رہوں میں ترے عشق میں جب نہ دے چین مجھ کو
نظر کا پلٹنا زباں کا بدلنا مقدر کی گردش زمانے کی کروٹ

یہ اے نوحؔ کس نے تمہیں رائے دی تھی کہ طوفاں اٹھاؤ زمیں دار ہو کر
اب اچھا تماشا نظر آ رہا ہے تہہ آب کھاتا سر آب کھیوٹ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse