کوئی ارماں تلاش دوست کا کیوں دل میں رہ جاتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی ارماں تلاش دوست کا کیوں دل میں رہ جاتا
by منشی نوبت رائے نظر لکھنوی

کوئی ارماں تلاش دوست کا کیوں دل میں رہ جاتا
غبار اپنا اگر گرد رہ منزل میں رہ جاتا

نہیں معلوم کس مدت سے خنجر تشنۂ خوں تھا
کوئی خطرہ لہو کا کیوں تن بسمل میں رہ جاتا

صفائی کب تھی ممکن یہ غبار دل وہ کافر ہے
مرے دل سے نکلتا بھی تو اس کے دل میں رہ جاتا

جلا اور جل کے سوز رشک سے دل بجھ گیا فوراً
اگر ہوتا چراغ و شمع اس محفل میں رہ جاتا

تأسف ہے غبار قیس کی پرواز حسرت پر
لپٹ کر کاش تھوڑا پردۂ محمل میں رہ جاتا

نہ دیتا گر سہارا کچھ امید وصل کا طوفاں
شناور بحر غم کا حسرت ساحل میں رہ جاتا

اس آئینے میں گر وہ دیکھ لیتے روئے انور کو
تو کیوں اتنا بڑا دھبہ مہ کامل میں رہ جاتا

نہ ملتا مدعائے دل درم ملتا جو منعم سے
مگر اک داغ بن کر وہ کف سائل میں رہ جاتا

نشاں اس کا کہیں ملتا سراغ اس کا کہیں لگتا
تو اپنا پاؤں کیوں تھک کر رہ منزل میں رہ جاتا

نظرؔ ہم کو علاقہ شعر سے کیا پر یہ حسرت ہے
نہ رہتے ہم تو اپنا ذکر اس محفل میں رہ جاتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse